Orhan

Add To collaction

غلط فہمیاں

غلط فہمیاں
از حورین 
قسط نمبر18
آخری قسط

وہ لوگ اس وقت ایئر پورٹ سے نکل کے گاڑی می طرف جا رہے تھے اور سامنے ہی انھیں وہ نظر آ گیا ۔وہ اسکی طرف بڑھے اس کے ساتھ اسکی بیوی اور 4 ماہ کی بیٹی ہانیہ تھی جو کہ اس وقت محو خواب تھی 
تم اکیلے اور کوئی نہیں آیا ۔اس نے اس کے پاس پوھنچ کے پوچھا 
نہیں وہ تم لوگوں کے  اچانک آنے کی وجہ تیاریوں میں لگی ہوئی ہے اور اذان اسکول تھا جب میں نکلا اس لئے وہ بھی نہیں آیا اور  کل تک تو تم لوگوں کا کوئی پلان نہیں تھا پھر اچانک ۔اس نے اس کے گلے لگ کے کہا 
ہاں بس تمہاری چہیتی کا پلان تھا اچانک آنے کا ۔اس نے اپنی بیوی کی طرف دیکھ کا کہا تو اس نےاسے  گھورا 
اوہ سمجھ جانا چاہیے ایسی اس کی ہی سوچ ہو سکتی ہے ۔اس نے اسکے سر پے ہلکی سی چپت لگاتے کہا 
اچھا چلو اب آجاؤ جلدی بیگم صاحبہ گھر انتظار کر رہی ہونگی ۔وہ گاڑی کی جانب جاتے بولا تو وہ بھی چل دئے ۔اس نے انکا سامان رکھا اور ڈرائیونگ سیٹ پے آ کے بیٹھا 
اور ایسے ہی ہلکی پھلکی باتوں میں وہ لوگ گھر پوھنچے 
وہ لاؤنج میں بیٹھی ان سب کا انتظار کر رہی تھی جبکہ اذان کارٹون دیکھنے میں مگن تھا 
بھابھی ۔وہ جلدی سے اسکی جانب بڑھی اور گلے لگی ہانیہ کو اب اس کے شوہر نے پکڑ ہوا تھا 
وہ اسے دیکھ کے بہت خوش تھی تب تک وہ دونوں بھی جا کے صوفے پے بیٹھ چکے تھے جبکہ اذان اب ہانیہ کی طرف بھاگا 
ہانی بابا ہانی اب یہاں ہی رہے دی نہ ۔اس نے معصومیت سے اپنے باپ کی طرف دیکھ کے پوچھا 
ہاں بیٹا اب کچھ دن یہ یہیں رہے گی ۔جواب ہانیہ کے بابا کی طرف سے آیا
نہیں اب یہ ہمیشہ یہیں رہے گی ۔وہ ضد سے منہ پھولا کے بولا پھر ہانیہ کو اپنی گود میں اٹھانے کے جتن کرنے لگا جبکہ دوسری طرف وہ دونوں باتوں میں پوری طرح مگن تھیں انھیں دیکھ کے ان دونوں نے تاسف سے سر ہلایا کے انکا کچھ نہیں ہو سکتا وہ تو جب کال پے بھی شروع ہو جائیں تو جلدی نہیں ختم ہوتی انکی باتیں 
پتا نہیں یار یہ عورتیں اتنی باتیں لاتیں کہاں سے ہیں سمجھ نہیں آتا ختم ہی نہیں ہوتی انکی باتیں ۔اس نے ہانیہ کو ھلکے ہلکے ہلاتے اونچی آواز میں کہا جو اذان کے بار بار چھیڑنے سے کسمسا رہی تھی جبکہ ان دونوں ایک ساتھ اسے گھورا 
چلیں بھابھی ہم کمرے میں چلتے ہیں یہاں تو لوگوں کو جلن ہی بہت ہو رہی ہے ۔اس نے  مصنوئی غصے سے کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی پھر ہانیہ کے گال پے بوسہ دے کے واپس مڑی 
ارے ہانیہ کو بھی لے آؤ نہ 
نہیں بھابھی رہنے دیں نہ تنگ کرے گی اٹھ گئی تو 
کچھ نہیں ہوتا چلو دو ادھر ۔وہ ہانیہ کو اٹھاتے بولی جبکہ اذان اب اپنی ماں کے ساتھ چپک گیا ہانیہ کی وجہ سے ۔پھر وہ دونوں اندر کی جانب چل دیں ساتھ ہی اذان بھی اور وہ دونوں بھی اپنی باتوں میں لگ گئے کھانے میں ابھی وقت تھا تو اس لئے سب اپنی اپنی باتوں مگن ہو گئے 
ہاں بھئی کیسی گزر رہی ہے زندگی 
ہمم اچھی گزر رہی ہے اب ہانیہ کی وجہ سے اور زیادہ اچھی ہو گئی ہے 
اچھا صحیح۔ ۔۔اور بتاؤ کام کیسا چل رہا ہے 
ہاں وہ بھی ٹھیک ہے تم بتاؤ اب تو بہت کم آتے ہو وہاں پاکستان میں ہی بس گئے بھئی تم تو 
ہاں بس وہ یہیں رہنا چاہتی ہے تو مینے سوچا کہ یہیں صحیح ہے 
ہمم خوش ہو ؟
بہت زیادہ میں بہت زیادہ خوش ہوں کہ وہ میری زندگی میں آئی اور اذان اس نے ہماری زندگی مکمل کر دی 
ہاں ماضی میں جو کچھ بھی ہوا ہم سب کے بہتر تھا 
ہمم ۔اب وہ دونوں آہستہ آہستہ ماضی کی یادوں میں کھونے لگے 
💞💞💞💞💞💞💞💞
ماضی 
آپ کے دو پیشنٹس کو ہوش آ گیا آپ لوگ ان سے مل سکتے ہیں ۔وہ لوگ ہوسپٹل میں ہی تھے جب ڈاکٹر نے آ کے بتایا تو شہناز بیگم اور آمان صاحب ان سے ملنے گئے جبکہ زارون بھی چاہتا تھا لیکن وہ کس رشتے سے جاتا آخر ۔۔۔تو وہ باہر ہی بے چینی سے بیٹھا رہا 
وہ دونوں اندر گئے تو وہ آنکھیں موندے لیٹی 
حوریہ بیٹا تم ٹھیک ہو ۔شہناز بیگم نے پوچھا 
جج جی ٹھیک ہ ہوں ۔وہ آنکھیں کھول کے  انھیں دیکھتے بولی جبکہ تکلیف کے بائث بولنا مشکل تھا 
وہاج اور عیشاء ؟اس نے ان دونوں کی طرف دیکھ کے پوچھا 
ہاں بیٹا عیشاء ٹھیک ہے ۔آمان صاحب نے کہا 
او اور وہاج ؟
وہ وہ بھی ٹھیک ہے بیٹا ۔انہوں نے نظریں چراتے کہا 
بابا ماما ۔اس نے ان دونوں کو بلایا 
جی بیٹا ٹھیک ہو تم کہیں درد ہو رہا ہے میں ڈاکٹر کو بلاؤں ۔شہناز بیگم بولیں جبکہ آمان صاحب بھی پریشانی سے اسکی جانب دیکھ رہے 
نہیں نہیں ایسا نہیں ہے وہ ۔۔۔وہ میں کہہ ۔۔۔۔رہی تھی کہ۔ ۔۔مجھے مجھے اپنے گھر جانا ہے اپنے ماما بابا کے پاس مجھے سب ۔۔۔سب یاد آ گیا ہے ۔اس نے ٹھہر ٹھہر کے بات مکمل کی جبکہ وہ دونوں دنگ ہو گئے انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ ان سے دور جائے گی 
اچھا بیٹا لیکن لیکن تم جانتی ہو نہ کہ تمہاری شادی ہوئی ہے ہمارےبیٹے سے ۔آخر کار آمان صاحب nنے ہمت جمع کرتے کہا 
ہمم جی یاد ہے ۔اس نے دوسری طرف دیکھتے کہا ۔کچھ دیر بعد وہ دونوں باہر چلے گئے ۔وہ عجیب سی کیفیت میں تھے ۔زارون نے انھیں ایسے دیکھ کے پوچھا 
کیا ہوا انکل سب ٹھیک ہے ؟
ہاں بیٹا ٹھیک ہے سب ۔تب ہی ایک نرس ان کے پاس آئی 
آپ کے پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے آپ کچھ دیر بعد ان سے مل سکتے ہیں 
یا اللّه تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے ۔وہ دونوں ایک ساتھ بولے ۔
💞💞💞💞💞💞💞💞
اگلے دو دن میں  وہاج کو ڈسچارج کر دیا گیا تھا اور وہ گھر آگیا تھا لیکن زخم کافی تھے اسے ابھی اور حوریہ اس سے ایک دن پہلے گھر آئی تھی وہاج سے مل کے اور وہاج کو بھی معلوم ہو چکا تھا اس کے بارے میں اور اس نے زارون کو بھی گھر آنے کے بعد بتا دیا تھا لیکن وہ ابھی فلحال اس سے اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا وہ چاہتا کہ کشش اپنے گھر جائے وہاں وہ ان سب سے معافی مانگے اپنی غلطیوں کی 
اگلے ایک ہفتے تک وہاج کافی بہتر ہو چکا تھا ۔اور کشش بھی اس کے صحت یاب ہونے کا انتظار کر رہی تھی پھر اب اس نے وہاج اور آمان صاحب sسے بات کی اور انھیں اپنے گھر جانے کا کہا وہ چاہتی تھی کہ وہ اپنے ماما بابا سے مل لے پھر انھیں سب بتاے اور پھر جو فیصلہ ہوگا وہی بہتر ہوگا لیکن جانے سے ایک دن پہلے :
حوریہ تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں 
کیا 
وہ جس دن ہماری شادی ہوئی تھی اصل میں اس دن ہماری شادی ننھی ہوئی بلکہ
بلکہ؟ وہبے یقینی سے بولی 
بلکہ تمہاری اور ۔۔۔۔تمہاری اور زارون کی شادی ہوئی 
کیا یہ ۔۔یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ایسا نہیں ہو سکتا آپ۔۔آپ  نہیں جانتے  اسے کتنا گھٹیا انسان ہے وہ ۔۔مینے۔ ۔۔مینے اس کے ساتھ دو مہینے گزارے ہیں ۔۔وہ سدھے منہ بات نہیں کر سکتا کسی سے اس کی ۔۔۔۔اسکی انا بہت اونچی ہے اس نے ۔۔۔اس نے مجھے میرے۔ ۔۔میرے گھر سے دور کیا ۔وہ وہ انسان کسی کی تکلیف نہیں سمجھ سکتا جب ۔۔۔جب اپنے گھر والوں سے دور ہوں تو کیسا۔ ۔۔کیسا لگتا ہے آپ نہیں جانتے میں اس کے ساتھ کیسے ۔۔۔کیسے رہی ہوں اور آپ ۔۔آپ کہہ رہے ہیں کہ ۔۔۔کہ اپنے میری ۔۔میری شادی اس سے کروائی پتا نہیں اس نے آپسے کیا کہا کیا سچ کیا جھوٹ اور آپ نے ۔۔۔آپ نے اس پے یقین کر لیا ۔۔۔میں۔ ۔۔میں جانتی تھی پہلے جو نکاح نامہ اس نے دکھایا وہ نکلی ۔۔۔نکلی تھا لیکن اب ۔ایک منٹ ایسا کیسے ہو سکتا ہے نام مینے اس دن آپ کا ہی سنا تھا مجھےاچھے سے یاد ہےپھر ؟۔وہ روتے ہوئے ہچکیوں کے درمیان بولی اور آخرمیں سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا جبکہ وہاج اس دوران خاموش رہا 
حوریہ میں جانتا ہوں اس نے جو کچھ کیا اس نے مجھے سب  سچ بتایا ہے شادی سے کچھ دن پہلے اور نکاح نامے میں نام اسی کا تھا مینے مولوی صاحب sسے کہا تھا کہ نام میرا پکارا جائے تا کہ کسی کو پتا نہ چلے ۔وہ کچھ شرمندہ لگا 
دھوکہ دھوکہ دیا اپنے مجھے ۔۔۔سب ۔۔۔سب کی نظروں میری کوئی اہمیت ہی نہیں ہے چلے جایں یہاں سے میں آپکو کبھی معاف نہیں کروں گی ۔وہ رخ پھیر کے بولی 
حوریہ ایسا مت میں جانتا ہوں میں نے غلط کیا لیکن زارون ویسا نہیں رہا اب اسکی آنکھوں میں میں نے تمہارے لئے محبت دیکھی ہے اس لئےمیں نے یہ سب کیا پلیز مجھے اس سب کے معاف کر دو 
آپ جا سکتے ہیں یہاں سے ۔وہ کچھ دیر کھڑا رہا پھر بھاری قدم اٹھاتا باہر کی جانب چل دیا اور پیچھے وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دی 
کیوں کیوں کرتے ہیں سب ایسا میرے ساتھ کیوں کیا میں انسان نہیں ہوں مجھے دکھ نہیں ہوتا نفرت ہےمجھے سب سے نفرت 
💞💞💞💞💞💞💞💞
.
.
.
.
قسمت کی لکیروں پر اعتبار کرنا چھوڑ دیا 
جب انسان بدل سکتے ہیں تو یہ لکیریں کیوں نہیں
اگلے دن وہ گھر آ گئی تھی وہاں اسے اپنی ماما کے بارے میں جب خبر ملی تو اسکا دماغ جیسے سن ہو گیا اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر قسمت نے اس کے ساتھ کیا کیا سب اس کے واپس انے سے بہت خوش تھے لیکن وہ تو جیسے اب کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھی 
ایک ڈیڑھ مہینے بعد وہ کچھ بھر ہوئی باتیں کرنے لگی پھر ایک دن زارون وہاں آیا اس نے ان سب سے اپنے کیے کی معافی مانگی لیکن کوئی بھی اسے معاف کرنے کو تیار نہ تھا کشش تو اسے دیکھنا تک گوارا نہ کرتی پھر آخر کار چار پانچ ماہ بعد اس نے اسے معاف کیا تو باقی سب نے بھی کیونکہ انکی یہی شرط تھی کہ اگر کشش کرے گی تو وہ بھی کر دیں گے 
اور پھر زارون نے مرتضیٰ صاحب کو کشش سے اچھے سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی اور یہ بھی یقین دلایا کہ اب وہ اسے بہت خوش رکھے گا اور پھر اس نے کشش کے نام اپنی آدھی پراپرٹی کر دی تحفظ کے طور پر 
قریباً چھ سات ماہ کی تگودو کے بعد کشش اس کی زندگی میں واپس آئی جس میں وہاج کا بھی برابر کا ہاتھ تھا لیکن کشش کا رویہ اس کے ساتھ سرد ہی رہا پھر کچھ عرصے کے لئے وہ لوگ لندن چلے گئے وہاں وہاج کا زارون کے کبھی کبھی انا جانا ہو جاتا اور وہیں پے اس نے نور کے لئے اپنا رشتہ بھیجا کیونکہ وہ اچھی لڑکی شوخ چنچل سی اور پھر وہاج اور نور کی شادی وہاں لندن ہی ہوئی 
زارون کشش کی وجہ سے پاکستان میں ہی سیٹ ہو گیا پھر ڈیڑھ سال بعد خدا نے انھیں نعمت سے نوازا ۔۔اذان جبکہ وہاج اور نور کو پانچ چھ  سال بعدرحمت سے  ہانیہ 
۔
بابا ماما ہانی اذان کو نہیں دے رہیں ۔اذان نے زارون سے کہا تو وہ دونوں اپنی سوچوں سے باہر نکلے 
ہاں بیٹا کیا کہ رہے ہو 
بابا ماما ہانی اذان کو نہیں دے رهیں ۔اس نے منہ پھولا کے کہا 
بیٹا ابھی آپ چھوٹے ہو نہ آپ سے گر جائے گی تو اسے چھوٹ لگے گی اس لئے نہیں دے رہی جب آپ بڑے ہو جاؤ پھر لینا اسے ۔زاروں نے اسے سمجھایا 
نہیں بابا اذان ہانی کو نہیں گراے گا ۔
اچھا اذان لے لینا ادھر بیٹھو آؤ ۔وہاج نے اسے کہا تو وو اس کے پاس چلا گیا تب ہی کشش وہاں 
آ جائیں کھانا کھا لیں آپ دونوں بھی ۔وہ یہ کہتے چل دی تو وہ دونوں بھی اٹھ گئے 
ختم شد 

   1
0 Comments